مسلمانوں کو زندہ جلانے والا آخر کار خود مسلمان ہو گیا۔ایک دردناک کہانی
ذیل کے سطور میں ایک ایسے سنگ دل انسان کے قبولِ اسلام کی عبرت آموز داستان پیش کی جارہی ہے
ذیل کے سطور میں ایک ایسے سنگ دل انسان کے قبولِ اسلام کی عبرت آموز داستان پیش کی جارہی ہے
جس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر برادرزادی کو قبولِ اسلام کے جرم میں زندہ
جلاکر اصحاب اخدود کی مثال قائم کی تھی ۔داستان دردو کرب ، عبرت ونصیحت
اور خوشی وغمی کے امتزاج سے لبریز ہے ....پڑھئے اور پڑھتے جائيے ۔ اسے ہم
برادرم مرزا تنویر بیگ صاحب
کے شکریہ کے ساتھ شاملِ اشاعت کررہے ہیں جنہوں نے ہمیں ارسال کیا ہے ۔ (ادارہ)
اگرميں يہ کہوں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے ۔ آج تک ميں دنیا کا ظالم ترین شخص ہوں ‘ بد ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں تو يہ میرا بالکل سچا تعارف ہوگا ۔ ميں ضلع مظفر نگر کی ” بڑھنا “ تحصیل کے مسلم راج پوت اکثریت والے گاوں ميں اب سے تقریبا ًبیالیس تینتالیس سال قبل پيدا ہوا۔ میراگھر انہ نہایت مذہبی ہندو ‘ لیکن جرائم پیشہ تھا ۔
والد اور چچا جرائم پیشہ گروہ کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے لوٹ مار اورظلم خاندانی طور پر گھٹی میں داخل تھا ۔ 1987ميں میرٹھ کے فسادات کے موقع پر میں اپنے باپ کے ساتھ رشتہ داروں کی مدد کے ليے میرٹھ ہی رہا اور ہم دونوں نے کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا ۔ اس کے بعد مسلم نفرت کے جذبہ سے متاثر ہوکر بجرنگ دل ميں شامل ہوا۔
بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ ميں 1990 ميں شاملی ميں کتنے مسلمانوں کو قتل کیا اسی طرح 1992 ميں” بڑھانہ “ ميں بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا ۔مگر تقدیر کے بھید بڑے نرالے ہيں، آج ميں مسلمان ہوں ، میرے قبولِ اسلام کا واقعہ بڑا عجیب ہے : ميرے ایک بڑے بھائی تھے جنکی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے ۔ اور مجھے کوئی اولاد نہيں ہے ۔ ان کی بڑی لڑکی کا نام ہیرا تھا۔ وہ عجیب دیوانی لڑکی تھی ‘ بہت ہی جذباتی ‘ جس سے ملتی بس دیوانوں کی طرح ‘ جس سے نفرت کرتی ‘ پاگلوں کی طرح ‘ کبھی کبھی ہميں يہ خیال ہو تا کہ شاید اس کے اوپر کوئی اثر ہے لہذا دیکھایا سنایا مگر اس کا حال جوں کا توں رہا ۔
آٹھویں کلاس کے بعد اس کی پڑھائی روک دی گئی مگر اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہائی اسکول کا فارم بھر دیا اور آٹھ دن کھیتوں ميں مزدوری کی تاکہ فیس بھرے اور کتابيں منگوائے ، جب کتابيں اسے خود ہی سمجھ ميں نہ آئی تو گھر کے سامنے ایک برہمن کے گھر اسکی لڑکی سے پڑھنے جانے لگی۔ برہمن کا لڑکا بدمعاش اور ڈاکو تھا ۔ نہ جانے کس طرح میری بھتیجی ہیرا کو بہکایا اور اس کو لیکر” بڑوت “کے جنگل ميں جہاں اسکا گروہ رہتا تھا پہنچا ۔ وہ اس کے ساتھ چلی تو گئی مگر وہاں جاکر اسے اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال آیا ‘ انکی بدنامی اور اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چپکے چپکے روتی تھی۔ اس گینگ ميں ادریس پور کا ایک مسلمان لڑکا بھی تھا ۔ ایک روز اس نے اسے روتے ہوئے دیکھ کر اس کے رونے کی وجہ معلوم کی ۔
تو اس نے بتایا کہ ميں نادانی ميں اسکے ساتھ آتو گئی مگر مجھے اپنی عزت خطرے ميں لگ رہی ہے اور اپنے ماں باپ کی پریشانی مجھے یاد آرہی ہے۔ اسکو ہیرا پر ترس آگیا اور اس نے کہا ميں تجھے اپنی بہن بناتا ہوں ‘ ميں تیری عزت کی حفاظت کروں گا اور تجھے اس جنگل سے نکال کر صحیح سلامت تیرے گھر پہنچانے کی کو شش کروں گا ۔ اس نے تدبیر يہ نکالی کہ اپنے ساتھیوں سے کہا کہ يہ لڑکی تو بہت بہادر اور اپنے ارادے کی پکی معلوم ہوتی ہے۔ ہميں اپنے گروہ ميں ایک دو لڑکیوں کو ضرور شامل کرنا چاہيے۔ اکثر ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جنگل ميں اس کو رکھنے کا طریقہ يہ ہے کہ اس کو لڑکوں کے کپڑے پہناؤ۔ اس کی بات سب ساتھیوں کو سمجھ ميں آگئی۔ ہیرا کوکپڑے پہناکر لڑکا بنایا گیااور اسے ساتھ لے کر پھرا جانے لگا۔
اب اس نے ایک روزہیرا کوکسی بہانے سے بڑوت بھےجا اور ہیرا سے کہا کہ تو وہاں تانگہ ميں بیٹھ کر ہمارے گھر ادریس پور چلی جانا اوروہاں جاکر میرے چھوٹے بھائی سے ساراحال سنانا اور کہنا کہ تیرے بھائی نے بلایا ہے۔ اور اس کو بتادینا کہ وہ يہاں آکر يہ کہے کہ وہ لڑکی کو ”بڑوت“ والوں نے شک ميں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے۔ ہیرا نے ایساہی کیا‘ اس کا بھائی جنگل ميں گیا اور اس نے اپنے بھائی سے جاکرکہا کہ اس لڑکی کو ” بڑوت “ والوں نے شک مےں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے ۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہےرا کو تھانے بھیج دو،اور وہ جاکر تھانے مےں کہے کہ مجھے ایک گروہ گاو ¿ں سے اٹھا کر لے گیاتھا ۔ کسی طرح مےں چھوٹ کر آگئی ہوں ‘ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ ہیرانے ایساہی کیا۔ بڑوت تھانے والوں نے ” بڑھانہ “ تھانہ سے رابطہ کیا ‘ وہاں پر اس لڑکی کے اغواکرنے کی رپورٹ پہلے لکھی ہوئی تھی۔ ”بڑھانہ “ تھانے کے لوگ لیڈیز پولس لے آئے اور تھانے سے ہیراکو لے کر ہمارے گاو ¿ں آئے۔ ہم نے اسے گھر تو رکھ لیا مگر ایسی بدچلن لڑکی کو گھر کیسے رکھےں۔
لیکن ہیرا نے بتایا کہ اس نے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے ۔یقین کسی کو نہ آیا ‘ تو ڈاکٹری چیک اپ کے لیے اسے اسپتال اس نیت سے لے گیا کہ اگر با عفت ہوگی تو ٹھیک ورنہ مار کر” بڑھانہ“ ندی مےں ڈال آئیں گے۔ اللہ کا کرناہوا کہ ڈاکٹر نے رپورٹ دی کہ اس کی عزت سلامت ہے۔ خوشی خوشی اس کو لے کر گھر آئے مگر و ہ اب مسلمانوں کا بہت ذکر کرتی تھی اور بار بار ایک مسلمان لڑکے کی وجہ سے اپنے بچ جانے کا ذکر کرتی تھی۔ وہ مسلمانوں کے گھر جانے لگی ۔ وہاں ایک لڑکی نے اسے ” دوزخ کا کھٹکا “ اور ” جنت کی کنجی “ نامی کتابیں دیں۔ مسلمانوں کی کتاب مےں نے گھر مےں دیکھا تو مےں اسے بہت مارا اور خبردار کیا کہ اگر اس طرح کی کتاب مےں نے گھر مےں دیکھا تو تجھے کاٹ ڈالوں گا ۔ مگر اس کے دل مےں اسلام گھر چکا تھا ۔
اور اسلام نے اس کے دل کی اندھیری کوٹھری کو اپنے نور سے منور کردیاتھا۔ اس نے مدرسہ مےںجاکر ایک مولوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور چپکے چپکے نماز سیکھنے لگی اور وقتا فوقتا نماز پڑھنے لگی ۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ شرک کے اندھیرے گھرانے مےں گھٹن محسوس کرنے لگی ۔ وہ بالکل اداس اداس رہنے لگی ‘ ہر وقت ہنسنے والی لڑکی ایسی ہوگئی جیسے اس کا سب کچھ بدل گیا ہو۔ پھروہ کسی طرح پروگرام بنا کر گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک مولوی صاحب اس کو اپنی بیوی کے ساتھ” پھلت“ چھوڑ آئے ۔ کچھ دن مولوی کلیم احمد صدیقی کے گھر رہی پھر مولوی صاحب نے اس کو احتیاط کے طور پر دہلی اپنی بہن کے گھر بھیج دیا۔ وہاں اسے بہت ہی مناسب ماحول ملا ‘ اسے اپنے گھر والوں خصوصا اپنی ماں سے بہت محبت تھی۔
اس کی ماں بہت بیمار رہتی تھی ۔ ایک رات اس نے خواب مےں دیکھا کہ اس کی ماں مر گئی ہے ۔ آنکھ کھلی تو ماں کی بہت یاد آئی ‘اگر ایمان کے بغیر اس کی ماں مر گئی تو کیا ہوگا ؟ ےہ سوچ کر رونے لگی اور اسکی چیخےں نکل گئی۔ گھر کے سبھی لوگ اٹھ گئے ‘ اس کو سمجھایا ‘تسلی دیا ۔ وقتی طور پر وہ چپ ہو گئی مگر بار بار وہ خواب یاد کرکے روتی تھی ۔ بار بار وہ ماں کو یاد کرتی اور گھر جانے کی اجازت مانگتی مگر مولوی صاحب سمجھاتے کہ تمہارے گھر والے تمہیں زندہ نہےں چھوڑےں گے۔اور پھر تمہےں ہندو بنا لےں گے۔ایمان کے خطرہ سے رک جاتی مگر جب گھر کی یاد آتی تو گھر جانے کی ضد کرنے لگتی۔بہت مجبور ہوکر مولوی صاحب نے اس کو اجازت دےا۔مگر سمجھایاکہ تم اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینے کی نیت سے گھر جاو ¿۔ اور واقعی اگر تمہےں اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو اس محبت کا سب سے ضروری حق ےہ ہے کہ تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور انکو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔ہیرا (جس کا نام اب حرا ءہو چکاتھا ) نے کہا کہ وہ تو اسلام کے نام سے ہی چڑھتے ہےں ‘ وہ ہرگز اسلام نہےں قبول کرسکتے۔
مولوی صاحب نے اس سے کہا تم بھی تو اسلام سے اسی طرح چڑھتی تھی ‘ جس طرح اب شرک سے نفرت کرتی ہو۔ اللہ سے دعا کرو اور مجھ سے عہد کرو کہ تم گھر اپنی ماں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر مےں جارہی ہو اگر تم اس نیت سے جاو ¿گی تو اللہ تعالی تمہاری حفاظت کرےں گے اور اگر تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف ہوگی جو ہمارے رسول ا کی اصل سنت ہے ۔ وہ دہلی سے پھلت اور پھر ہمارے گھر آگئی۔ ہم اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے ۔ مےں نے اسے جوتوں اور لاتوں سے مارا ۔ اس نے ےہ تو نہےں بتایا کہ کہاں رہی ؟ البتہ ےہ بتایاکہ وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اب اسے اسلام سے کوئی ہٹا نہےں سکتا ۔ ہم اس پر سختی کرتے تو الٹا ہمےں مسلمان ہونے کو کہتی ۔ اس کی ماں بہت بیمار تھی ۔ دو مہےنے کے بعد وہ مر گئی تو وہ اس کو دفن کے لےے مسلمانوں کو دےنے کو کہتی اور ےہ کہتی رہی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ پڑھا ہے ۔
اب روز ہمارے گھر مےں ایک فساد ہونے لگا ‘ کبھی وہ بھائیوں کو مسلمان ہونے کو کہتی تو کبھی باپ کو ‘ ہم لوگوں نے اسے میرٹھ اس کے نانےہال مےں پہنچادیا ۔ اس کے ماموں بھی اس کی مسلمانیت سے عاجز آگئے اور انہوںنے اسکے والدکو اور مجھے بلایا کہ اسے ہمارے ےہاں سے لے جاو ¿، ہم لوگ روز ر وز کے جھگڑوں سے عاجز آگئے ہےں۔ اب مےں نے بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے مشورہ کیا ‘ سب نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ دیا ۔ مےں اسے گاو ¿ں لے آیا‘ ایک دن جاکر ندی کے کنارے پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا ۔ مےں اور مےرے بڑے بھائی (حراءکے والد) بُوا کے گھر کے بہانے اس کو لے کر نکلے ۔ اسے شاید اصل حقیقت کا علم ہو چکا تھا ‘ وہ نہائی ، نئے کپڑے پہنی اور ہم سے کہا کہ چچا! آخری نماز پڑھنے دو ‘ جلدی سے نماز پڑھی اور خوشی خوشی دلہن سی بن کر ہمارے ساتھ چل دی ۔ کس دل سے پوری کروں ےہ داستان ؟ مگرپوری تو کرنی ہے ، میرے تھیلے مےں پانچ لیٹر پٹرول تھا ۔ ہم اس کو لیکر اس گڑھے کے پاس پہنچے جو ایک دن پہلے پروگرام کے تحت کھودا گیا تھا۔ مجھ جےسے درندہ صفت چچا نے ےہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو اس گڑھے مےں دھکا دے دیا کہ تو ہمےں جہنم کی آگ سے کیا بچائے گی توخود نرک کا مزہ چکھ ۔
گڑھے مےں دھکا دیکر مےں نے اس کے اوپرسارا پٹرول ڈال دیا اور ماچس جلا دیا ۔ میرے بھائی( حراءکے والد) بس روتے ہوئے اس کو کھڑے دیکھتے رہے ‘ جلتی ہوئی ماچس کی تیلی جب اس پر لگی تو آگ اس کے نئے کپڑوں مےں بھڑک اٹھی‘اس حال مےں اس نے ہاتھ آسمان کے طرف اٹھائی اور چیخی: ” مےرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہےں نا! مےرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہےں نا! مےرے اللہ ! آپ مجھ سے محبت کرتے ہےں نا! اپنی حراءسے بہت پیار کرتے ہےں نا‘ ہاں مےرے اللہ! آپ غار حراءسے بھی محبت کرتے ہےں ‘ اور گڑھے مےں جلتی حراءسے بھی محبت کرتے ہےں نا‘ آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہےں“ ۔ اس کے بعد اس نے زور زور سے کہنا شروع کیا : ابّا! اسلام ©ضرور قبول کرلینا ‘ مسلمان ضرور ہو جانا‘ چاچا! مسلمان ضرور ہو جانا‘ اس پر مجھے غصہ آگیا اور مےں بھائی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چلا آیا ۔ بھائی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ ایک بار اور سمجھا کر دیکھ لیتے ‘ مجھے ان پر غصہ آیا۔ بعد مےں واپس آتے ہوئے ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے ” لاالہ الا اللہ “ کی آواز ےں آتی سنی ‘ ہم اپنے مذہبی فریضے کو ادا کرکے چلے آئے مگر اس کے ایمان ویقین مےں ڈوبے آخری الفاظ میرے پتھر دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر گئے۔حراءکے والد آکر بیمار ہو گئے ‘ ان کے دل مےں صدمہ سا بےٹھ گیااور ےہ بیماری ان کے لےے جان لیوا ثابت ہو ئی۔ مرنے کے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ مےں نے زندگی مےں جو کچھ کیا مگر اب مےری موت ہیرا کے دھرم پر جائے بغیر نہےں ہو سکتی۔ تم کسی مو لوی کو بلا لاو ¿۔ مےں بھی بھائی صاحب کی حال کی وجہ سے ٹوٹ گیا ۔
مےں مسجد کے امام صاحب کو لے آیا ۔ انہوں نے ان کو کلمہ پڑھاکر ان کا نام عبد الرحمن رکھا ۔بھائی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کی طرح مٹی دینا۔ میرے لیے ےہ بہت مشکل تھامگر مےں نے بھائی کی آخری خواہش پوری کرنے کے لےے ان کو علاج کے بہانے دہلی لے گیا ‘وہاں ایک ہاسپیٹل مےں داخل کیا ۔ اسپتال مےں ہی انکی موت ہوئی ۔ وہ بہت اطمینان سے مرے ‘ ہمدرد کے ایک ڈاکٹر سے ےہ حال سنایا تو انہوں نے کچھ مسلمانوں کو بلاکر انکے دفن کا انتظام کیا۔ مگر بھائی کے مسلمان ہو کر مرنے کا مجھے بہت دکھ تھا اور ےہ یقین ہو گیا کہ میری بھابھی بھی مسلمان ہوگئی ہوگی ۔ مجھے ایسالگا کہ کسی مسلمان نے میرے گھر پر جادو کردیا ہے اور وہ دلوں کو باندھ رہا ہے کہ ایک ایک کر کے سب اپنے دھرم کو چھوڑ کر مسلمان ہو کر مر رہے ہےں۔ اس تعلق سے مےں نے بہت سے جیوتشیوں سے بات کی۔مےں ایک تانترک کی تلاش مےں ”شاملی “سے ” اون “ جا رہا تھا، بس مےں سوار ہوا تو بس کسی مسلمان کی تھی اور ڈرائیوربھی مسلمان تھا۔ اس نے ٹیپ مےں قوالی چلا رکھی تھی ” بڑھیا “ نام کی قوالی تھی ۔اس مےںہمارے نبی اکو ایک بڑھیا کے ستانے ‘ لیکن آپ ا کا اس کے ساتھ اچھے سلوک ، اس کو سمجھانے اور پھر بڑھیا کے مسلما ن ہوجانے کا قصہ تھا۔ اسپےکر میرے سر پر ہی تھا۔اس قوالی نے میری سوچ ہی بدل دی۔ مجھے خیال ہوا کہ جس نبی کا ےہ قصہ ہے وہ جھوٹا نہےں ہو سکتا ۔
مےں ” اون “ کے بجائے ” جھنجھانہ “ اتر گیا ۔اور خیال ہوا کہ مجھے اسلام کے بارے مےں پڑھنا چاہےے ‘اس کے بعد شاملی کی بس مےں بےٹھ گیا ۔ اس مےں بھی ٹیپ بج رہا تھا۔ پاکستان کے مولانا قاری حنیف صاحب کی تقریر تھی ‘ مرنے اور مرنے کے بعد کے حالات پر تقریر مشتمل تھی۔ مجھے ” شاملی “ اترنا تھا مگر تقریر ابھی مکمل نہ ہوئی تھی‘ شاملی بس اسٹاپ پر پہنچ کر ڈرائیور نے ٹیپ بند کردیا ۔ مےں نے تقریر سننے کے لےے مظفر نگرکا ٹکٹ لے لیا مگر ” بگھرا“ پہنچ کر وہ تقریر ختم ہو گئی۔ اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلے کو بہت کم کر دیا ۔ مےں بڑھانہ روڈ پر اتر کر گھر جانے کے لےے دوسری بس مےں سوار ہوگیا ۔ اس بس مےں مجھ سے قریب ایک مولوی صاحب بےٹھے ہوئے تھے‘ ان سے مےں نے کہا کہ مےں اسلام کے بارے مےں کچھ پڑھنا چاہتاہوں اور اسلام کے بارے مےں معلومات حاصل کرنا چاہتاہوں ‘ آپ اس سلسلہ مےں مےری مدد کرےں ‘ انہوں نے کہا آپ پھلت جاکر مولوی کلیم صدیقی سے ملےں ۔ مےں نے پھلت کا پتہ معلوم کیا اور گھر جانے کے بجائے پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صدیقی موجود نہےں تھے‘ اگلے روز صبح کو آنے والے تھے۔
رات کو ایک ماسٹر صاحب نے مجھے مولوی کلیم صدیقی کی کتاب ” آپ کی امانت آپ کی سیوا مےں “ دیا ۔ اس کتاب کی زبان اور دل کو چھو لینے والی باتوں نے مجھے شکار کرلیا ۔ مولوی صاحب صبح سویرے کے بجائے اگلے دن شام کو پھلت آئے ۔ مےں نے مغرب کے بعد ان سے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا مےں اسلام کے بارے مےں معلومات کرنے آیا تھا مگر آپ کی امانت نے مجھے شکار کر لیا ۔ مو لوی صاحب بہت خوش ہوئے ۔ ۳۱ جنوری ۰۰۰۲ ءکو مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام عبداللہ رکھا ۔ رات کو مےں وہی رکا ‘ مےں نے مولوی صاحب سے ایک گھنٹے کا وقت مانگا ۔ اور اپنے ظلم وبربریت کے ننگے ناچ کی کہانی سنائی۔ مولوی صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا کہ اس درجہ سفاکی اور بربریت کو کس طرح معاف کیا جا سکتاہے۔ مولوی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ قبول اسلام سے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہےں۔
آپ اپنے دل کے اطمینان کے لےے اب کچھ مسلمانوں کی جان بچانے کی کوشش کریں ۔ قرآن کا فرمان ہے کہ نیکیاں گناہوں کو زائل کر دیتی ہے ( اِنَّ ال ±حَسَنَاتِ یُذ ±ھِب ±نَ السَّیِّئَات ) میں اپنے دل کی تسلی کے لیے کوشش کرتاہوں کہ کسی حادثہ میں یا بیماری میں ‘ کوئی مسلمان مر رہا ہے تو اسے بچاوں۔ میں نے گاوں کے مکانات اور زمینیں سستے داموں میں فروخت کی اور دہلی مےں مکان لیا ۔ بیوی اور دو بھتیجیوں اور حراءکی بہن کو تیار کیا اور پھلت لے جاکر کلمہ پڑھوایا ۔ میرا دل ہر وقت اس غم مےں ڈوبا رہتا ہے کہ اتنے سارے مسلمانوں اور پھول سی بچی کا سفاکی سے قتل کرنے والا کس طرح معافی کامستحق ہے۔ مولوی صاحب نے مجھے قرآن شریف پڑھنے کو کہا اور خاص کر سورة بروج کو بار بار پڑھنے کو کہا ‘اب مجھے وہ زبانی یاد ہے، مجھے ایسا لگاکہ غیب کے جاننے والے اللہ نے اس میںہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے۔ ( سورة البروج: ۴۔۹) اس سورہ کو پڑھیں اور حراء کی تڑپا دینے والی آخری صداؤں پر غور کریں ۔
(بشکریہ ماہنامہ ”ارمغان“ فروری 2011ء )
کے شکریہ کے ساتھ شاملِ اشاعت کررہے ہیں جنہوں نے ہمیں ارسال کیا ہے ۔ (ادارہ)
اگرميں يہ کہوں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے ۔ آج تک ميں دنیا کا ظالم ترین شخص ہوں ‘ بد ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں تو يہ میرا بالکل سچا تعارف ہوگا ۔ ميں ضلع مظفر نگر کی ” بڑھنا “ تحصیل کے مسلم راج پوت اکثریت والے گاوں ميں اب سے تقریبا ًبیالیس تینتالیس سال قبل پيدا ہوا۔ میراگھر انہ نہایت مذہبی ہندو ‘ لیکن جرائم پیشہ تھا ۔
والد اور چچا جرائم پیشہ گروہ کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے لوٹ مار اورظلم خاندانی طور پر گھٹی میں داخل تھا ۔ 1987ميں میرٹھ کے فسادات کے موقع پر میں اپنے باپ کے ساتھ رشتہ داروں کی مدد کے ليے میرٹھ ہی رہا اور ہم دونوں نے کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا ۔ اس کے بعد مسلم نفرت کے جذبہ سے متاثر ہوکر بجرنگ دل ميں شامل ہوا۔
بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ ميں 1990 ميں شاملی ميں کتنے مسلمانوں کو قتل کیا اسی طرح 1992 ميں” بڑھانہ “ ميں بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا ۔مگر تقدیر کے بھید بڑے نرالے ہيں، آج ميں مسلمان ہوں ، میرے قبولِ اسلام کا واقعہ بڑا عجیب ہے : ميرے ایک بڑے بھائی تھے جنکی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے ۔ اور مجھے کوئی اولاد نہيں ہے ۔ ان کی بڑی لڑکی کا نام ہیرا تھا۔ وہ عجیب دیوانی لڑکی تھی ‘ بہت ہی جذباتی ‘ جس سے ملتی بس دیوانوں کی طرح ‘ جس سے نفرت کرتی ‘ پاگلوں کی طرح ‘ کبھی کبھی ہميں يہ خیال ہو تا کہ شاید اس کے اوپر کوئی اثر ہے لہذا دیکھایا سنایا مگر اس کا حال جوں کا توں رہا ۔
آٹھویں کلاس کے بعد اس کی پڑھائی روک دی گئی مگر اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہائی اسکول کا فارم بھر دیا اور آٹھ دن کھیتوں ميں مزدوری کی تاکہ فیس بھرے اور کتابيں منگوائے ، جب کتابيں اسے خود ہی سمجھ ميں نہ آئی تو گھر کے سامنے ایک برہمن کے گھر اسکی لڑکی سے پڑھنے جانے لگی۔ برہمن کا لڑکا بدمعاش اور ڈاکو تھا ۔ نہ جانے کس طرح میری بھتیجی ہیرا کو بہکایا اور اس کو لیکر” بڑوت “کے جنگل ميں جہاں اسکا گروہ رہتا تھا پہنچا ۔ وہ اس کے ساتھ چلی تو گئی مگر وہاں جاکر اسے اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال آیا ‘ انکی بدنامی اور اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چپکے چپکے روتی تھی۔ اس گینگ ميں ادریس پور کا ایک مسلمان لڑکا بھی تھا ۔ ایک روز اس نے اسے روتے ہوئے دیکھ کر اس کے رونے کی وجہ معلوم کی ۔
تو اس نے بتایا کہ ميں نادانی ميں اسکے ساتھ آتو گئی مگر مجھے اپنی عزت خطرے ميں لگ رہی ہے اور اپنے ماں باپ کی پریشانی مجھے یاد آرہی ہے۔ اسکو ہیرا پر ترس آگیا اور اس نے کہا ميں تجھے اپنی بہن بناتا ہوں ‘ ميں تیری عزت کی حفاظت کروں گا اور تجھے اس جنگل سے نکال کر صحیح سلامت تیرے گھر پہنچانے کی کو شش کروں گا ۔ اس نے تدبیر يہ نکالی کہ اپنے ساتھیوں سے کہا کہ يہ لڑکی تو بہت بہادر اور اپنے ارادے کی پکی معلوم ہوتی ہے۔ ہميں اپنے گروہ ميں ایک دو لڑکیوں کو ضرور شامل کرنا چاہيے۔ اکثر ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جنگل ميں اس کو رکھنے کا طریقہ يہ ہے کہ اس کو لڑکوں کے کپڑے پہناؤ۔ اس کی بات سب ساتھیوں کو سمجھ ميں آگئی۔ ہیرا کوکپڑے پہناکر لڑکا بنایا گیااور اسے ساتھ لے کر پھرا جانے لگا۔
اب اس نے ایک روزہیرا کوکسی بہانے سے بڑوت بھےجا اور ہیرا سے کہا کہ تو وہاں تانگہ ميں بیٹھ کر ہمارے گھر ادریس پور چلی جانا اوروہاں جاکر میرے چھوٹے بھائی سے ساراحال سنانا اور کہنا کہ تیرے بھائی نے بلایا ہے۔ اور اس کو بتادینا کہ وہ يہاں آکر يہ کہے کہ وہ لڑکی کو ”بڑوت“ والوں نے شک ميں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے۔ ہیرا نے ایساہی کیا‘ اس کا بھائی جنگل ميں گیا اور اس نے اپنے بھائی سے جاکرکہا کہ اس لڑکی کو ” بڑوت “ والوں نے شک مےں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے ۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہےرا کو تھانے بھیج دو،اور وہ جاکر تھانے مےں کہے کہ مجھے ایک گروہ گاو ¿ں سے اٹھا کر لے گیاتھا ۔ کسی طرح مےں چھوٹ کر آگئی ہوں ‘ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ ہیرانے ایساہی کیا۔ بڑوت تھانے والوں نے ” بڑھانہ “ تھانہ سے رابطہ کیا ‘ وہاں پر اس لڑکی کے اغواکرنے کی رپورٹ پہلے لکھی ہوئی تھی۔ ”بڑھانہ “ تھانے کے لوگ لیڈیز پولس لے آئے اور تھانے سے ہیراکو لے کر ہمارے گاو ¿ں آئے۔ ہم نے اسے گھر تو رکھ لیا مگر ایسی بدچلن لڑکی کو گھر کیسے رکھےں۔
لیکن ہیرا نے بتایا کہ اس نے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے ۔یقین کسی کو نہ آیا ‘ تو ڈاکٹری چیک اپ کے لیے اسے اسپتال اس نیت سے لے گیا کہ اگر با عفت ہوگی تو ٹھیک ورنہ مار کر” بڑھانہ“ ندی مےں ڈال آئیں گے۔ اللہ کا کرناہوا کہ ڈاکٹر نے رپورٹ دی کہ اس کی عزت سلامت ہے۔ خوشی خوشی اس کو لے کر گھر آئے مگر و ہ اب مسلمانوں کا بہت ذکر کرتی تھی اور بار بار ایک مسلمان لڑکے کی وجہ سے اپنے بچ جانے کا ذکر کرتی تھی۔ وہ مسلمانوں کے گھر جانے لگی ۔ وہاں ایک لڑکی نے اسے ” دوزخ کا کھٹکا “ اور ” جنت کی کنجی “ نامی کتابیں دیں۔ مسلمانوں کی کتاب مےں نے گھر مےں دیکھا تو مےں اسے بہت مارا اور خبردار کیا کہ اگر اس طرح کی کتاب مےں نے گھر مےں دیکھا تو تجھے کاٹ ڈالوں گا ۔ مگر اس کے دل مےں اسلام گھر چکا تھا ۔
اور اسلام نے اس کے دل کی اندھیری کوٹھری کو اپنے نور سے منور کردیاتھا۔ اس نے مدرسہ مےںجاکر ایک مولوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور چپکے چپکے نماز سیکھنے لگی اور وقتا فوقتا نماز پڑھنے لگی ۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ شرک کے اندھیرے گھرانے مےں گھٹن محسوس کرنے لگی ۔ وہ بالکل اداس اداس رہنے لگی ‘ ہر وقت ہنسنے والی لڑکی ایسی ہوگئی جیسے اس کا سب کچھ بدل گیا ہو۔ پھروہ کسی طرح پروگرام بنا کر گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک مولوی صاحب اس کو اپنی بیوی کے ساتھ” پھلت“ چھوڑ آئے ۔ کچھ دن مولوی کلیم احمد صدیقی کے گھر رہی پھر مولوی صاحب نے اس کو احتیاط کے طور پر دہلی اپنی بہن کے گھر بھیج دیا۔ وہاں اسے بہت ہی مناسب ماحول ملا ‘ اسے اپنے گھر والوں خصوصا اپنی ماں سے بہت محبت تھی۔
اس کی ماں بہت بیمار رہتی تھی ۔ ایک رات اس نے خواب مےں دیکھا کہ اس کی ماں مر گئی ہے ۔ آنکھ کھلی تو ماں کی بہت یاد آئی ‘اگر ایمان کے بغیر اس کی ماں مر گئی تو کیا ہوگا ؟ ےہ سوچ کر رونے لگی اور اسکی چیخےں نکل گئی۔ گھر کے سبھی لوگ اٹھ گئے ‘ اس کو سمجھایا ‘تسلی دیا ۔ وقتی طور پر وہ چپ ہو گئی مگر بار بار وہ خواب یاد کرکے روتی تھی ۔ بار بار وہ ماں کو یاد کرتی اور گھر جانے کی اجازت مانگتی مگر مولوی صاحب سمجھاتے کہ تمہارے گھر والے تمہیں زندہ نہےں چھوڑےں گے۔اور پھر تمہےں ہندو بنا لےں گے۔ایمان کے خطرہ سے رک جاتی مگر جب گھر کی یاد آتی تو گھر جانے کی ضد کرنے لگتی۔بہت مجبور ہوکر مولوی صاحب نے اس کو اجازت دےا۔مگر سمجھایاکہ تم اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینے کی نیت سے گھر جاو ¿۔ اور واقعی اگر تمہےں اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو اس محبت کا سب سے ضروری حق ےہ ہے کہ تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور انکو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔ہیرا (جس کا نام اب حرا ءہو چکاتھا ) نے کہا کہ وہ تو اسلام کے نام سے ہی چڑھتے ہےں ‘ وہ ہرگز اسلام نہےں قبول کرسکتے۔
مولوی صاحب نے اس سے کہا تم بھی تو اسلام سے اسی طرح چڑھتی تھی ‘ جس طرح اب شرک سے نفرت کرتی ہو۔ اللہ سے دعا کرو اور مجھ سے عہد کرو کہ تم گھر اپنی ماں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر مےں جارہی ہو اگر تم اس نیت سے جاو ¿گی تو اللہ تعالی تمہاری حفاظت کرےں گے اور اگر تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف ہوگی جو ہمارے رسول ا کی اصل سنت ہے ۔ وہ دہلی سے پھلت اور پھر ہمارے گھر آگئی۔ ہم اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے ۔ مےں نے اسے جوتوں اور لاتوں سے مارا ۔ اس نے ےہ تو نہےں بتایا کہ کہاں رہی ؟ البتہ ےہ بتایاکہ وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اب اسے اسلام سے کوئی ہٹا نہےں سکتا ۔ ہم اس پر سختی کرتے تو الٹا ہمےں مسلمان ہونے کو کہتی ۔ اس کی ماں بہت بیمار تھی ۔ دو مہےنے کے بعد وہ مر گئی تو وہ اس کو دفن کے لےے مسلمانوں کو دےنے کو کہتی اور ےہ کہتی رہی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ پڑھا ہے ۔
اب روز ہمارے گھر مےں ایک فساد ہونے لگا ‘ کبھی وہ بھائیوں کو مسلمان ہونے کو کہتی تو کبھی باپ کو ‘ ہم لوگوں نے اسے میرٹھ اس کے نانےہال مےں پہنچادیا ۔ اس کے ماموں بھی اس کی مسلمانیت سے عاجز آگئے اور انہوںنے اسکے والدکو اور مجھے بلایا کہ اسے ہمارے ےہاں سے لے جاو ¿، ہم لوگ روز ر وز کے جھگڑوں سے عاجز آگئے ہےں۔ اب مےں نے بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے مشورہ کیا ‘ سب نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ دیا ۔ مےں اسے گاو ¿ں لے آیا‘ ایک دن جاکر ندی کے کنارے پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا ۔ مےں اور مےرے بڑے بھائی (حراءکے والد) بُوا کے گھر کے بہانے اس کو لے کر نکلے ۔ اسے شاید اصل حقیقت کا علم ہو چکا تھا ‘ وہ نہائی ، نئے کپڑے پہنی اور ہم سے کہا کہ چچا! آخری نماز پڑھنے دو ‘ جلدی سے نماز پڑھی اور خوشی خوشی دلہن سی بن کر ہمارے ساتھ چل دی ۔ کس دل سے پوری کروں ےہ داستان ؟ مگرپوری تو کرنی ہے ، میرے تھیلے مےں پانچ لیٹر پٹرول تھا ۔ ہم اس کو لیکر اس گڑھے کے پاس پہنچے جو ایک دن پہلے پروگرام کے تحت کھودا گیا تھا۔ مجھ جےسے درندہ صفت چچا نے ےہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو اس گڑھے مےں دھکا دے دیا کہ تو ہمےں جہنم کی آگ سے کیا بچائے گی توخود نرک کا مزہ چکھ ۔
گڑھے مےں دھکا دیکر مےں نے اس کے اوپرسارا پٹرول ڈال دیا اور ماچس جلا دیا ۔ میرے بھائی( حراءکے والد) بس روتے ہوئے اس کو کھڑے دیکھتے رہے ‘ جلتی ہوئی ماچس کی تیلی جب اس پر لگی تو آگ اس کے نئے کپڑوں مےں بھڑک اٹھی‘اس حال مےں اس نے ہاتھ آسمان کے طرف اٹھائی اور چیخی: ” مےرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہےں نا! مےرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہےں نا! مےرے اللہ ! آپ مجھ سے محبت کرتے ہےں نا! اپنی حراءسے بہت پیار کرتے ہےں نا‘ ہاں مےرے اللہ! آپ غار حراءسے بھی محبت کرتے ہےں ‘ اور گڑھے مےں جلتی حراءسے بھی محبت کرتے ہےں نا‘ آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہےں“ ۔ اس کے بعد اس نے زور زور سے کہنا شروع کیا : ابّا! اسلام ©ضرور قبول کرلینا ‘ مسلمان ضرور ہو جانا‘ چاچا! مسلمان ضرور ہو جانا‘ اس پر مجھے غصہ آگیا اور مےں بھائی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چلا آیا ۔ بھائی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ ایک بار اور سمجھا کر دیکھ لیتے ‘ مجھے ان پر غصہ آیا۔ بعد مےں واپس آتے ہوئے ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے ” لاالہ الا اللہ “ کی آواز ےں آتی سنی ‘ ہم اپنے مذہبی فریضے کو ادا کرکے چلے آئے مگر اس کے ایمان ویقین مےں ڈوبے آخری الفاظ میرے پتھر دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر گئے۔حراءکے والد آکر بیمار ہو گئے ‘ ان کے دل مےں صدمہ سا بےٹھ گیااور ےہ بیماری ان کے لےے جان لیوا ثابت ہو ئی۔ مرنے کے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ مےں نے زندگی مےں جو کچھ کیا مگر اب مےری موت ہیرا کے دھرم پر جائے بغیر نہےں ہو سکتی۔ تم کسی مو لوی کو بلا لاو ¿۔ مےں بھی بھائی صاحب کی حال کی وجہ سے ٹوٹ گیا ۔
مےں مسجد کے امام صاحب کو لے آیا ۔ انہوں نے ان کو کلمہ پڑھاکر ان کا نام عبد الرحمن رکھا ۔بھائی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کی طرح مٹی دینا۔ میرے لیے ےہ بہت مشکل تھامگر مےں نے بھائی کی آخری خواہش پوری کرنے کے لےے ان کو علاج کے بہانے دہلی لے گیا ‘وہاں ایک ہاسپیٹل مےں داخل کیا ۔ اسپتال مےں ہی انکی موت ہوئی ۔ وہ بہت اطمینان سے مرے ‘ ہمدرد کے ایک ڈاکٹر سے ےہ حال سنایا تو انہوں نے کچھ مسلمانوں کو بلاکر انکے دفن کا انتظام کیا۔ مگر بھائی کے مسلمان ہو کر مرنے کا مجھے بہت دکھ تھا اور ےہ یقین ہو گیا کہ میری بھابھی بھی مسلمان ہوگئی ہوگی ۔ مجھے ایسالگا کہ کسی مسلمان نے میرے گھر پر جادو کردیا ہے اور وہ دلوں کو باندھ رہا ہے کہ ایک ایک کر کے سب اپنے دھرم کو چھوڑ کر مسلمان ہو کر مر رہے ہےں۔ اس تعلق سے مےں نے بہت سے جیوتشیوں سے بات کی۔مےں ایک تانترک کی تلاش مےں ”شاملی “سے ” اون “ جا رہا تھا، بس مےں سوار ہوا تو بس کسی مسلمان کی تھی اور ڈرائیوربھی مسلمان تھا۔ اس نے ٹیپ مےں قوالی چلا رکھی تھی ” بڑھیا “ نام کی قوالی تھی ۔اس مےںہمارے نبی اکو ایک بڑھیا کے ستانے ‘ لیکن آپ ا کا اس کے ساتھ اچھے سلوک ، اس کو سمجھانے اور پھر بڑھیا کے مسلما ن ہوجانے کا قصہ تھا۔ اسپےکر میرے سر پر ہی تھا۔اس قوالی نے میری سوچ ہی بدل دی۔ مجھے خیال ہوا کہ جس نبی کا ےہ قصہ ہے وہ جھوٹا نہےں ہو سکتا ۔
مےں ” اون “ کے بجائے ” جھنجھانہ “ اتر گیا ۔اور خیال ہوا کہ مجھے اسلام کے بارے مےں پڑھنا چاہےے ‘اس کے بعد شاملی کی بس مےں بےٹھ گیا ۔ اس مےں بھی ٹیپ بج رہا تھا۔ پاکستان کے مولانا قاری حنیف صاحب کی تقریر تھی ‘ مرنے اور مرنے کے بعد کے حالات پر تقریر مشتمل تھی۔ مجھے ” شاملی “ اترنا تھا مگر تقریر ابھی مکمل نہ ہوئی تھی‘ شاملی بس اسٹاپ پر پہنچ کر ڈرائیور نے ٹیپ بند کردیا ۔ مےں نے تقریر سننے کے لےے مظفر نگرکا ٹکٹ لے لیا مگر ” بگھرا“ پہنچ کر وہ تقریر ختم ہو گئی۔ اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلے کو بہت کم کر دیا ۔ مےں بڑھانہ روڈ پر اتر کر گھر جانے کے لےے دوسری بس مےں سوار ہوگیا ۔ اس بس مےں مجھ سے قریب ایک مولوی صاحب بےٹھے ہوئے تھے‘ ان سے مےں نے کہا کہ مےں اسلام کے بارے مےں کچھ پڑھنا چاہتاہوں اور اسلام کے بارے مےں معلومات حاصل کرنا چاہتاہوں ‘ آپ اس سلسلہ مےں مےری مدد کرےں ‘ انہوں نے کہا آپ پھلت جاکر مولوی کلیم صدیقی سے ملےں ۔ مےں نے پھلت کا پتہ معلوم کیا اور گھر جانے کے بجائے پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صدیقی موجود نہےں تھے‘ اگلے روز صبح کو آنے والے تھے۔
رات کو ایک ماسٹر صاحب نے مجھے مولوی کلیم صدیقی کی کتاب ” آپ کی امانت آپ کی سیوا مےں “ دیا ۔ اس کتاب کی زبان اور دل کو چھو لینے والی باتوں نے مجھے شکار کرلیا ۔ مولوی صاحب صبح سویرے کے بجائے اگلے دن شام کو پھلت آئے ۔ مےں نے مغرب کے بعد ان سے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا مےں اسلام کے بارے مےں معلومات کرنے آیا تھا مگر آپ کی امانت نے مجھے شکار کر لیا ۔ مو لوی صاحب بہت خوش ہوئے ۔ ۳۱ جنوری ۰۰۰۲ ءکو مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام عبداللہ رکھا ۔ رات کو مےں وہی رکا ‘ مےں نے مولوی صاحب سے ایک گھنٹے کا وقت مانگا ۔ اور اپنے ظلم وبربریت کے ننگے ناچ کی کہانی سنائی۔ مولوی صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا کہ اس درجہ سفاکی اور بربریت کو کس طرح معاف کیا جا سکتاہے۔ مولوی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ قبول اسلام سے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہےں۔
آپ اپنے دل کے اطمینان کے لےے اب کچھ مسلمانوں کی جان بچانے کی کوشش کریں ۔ قرآن کا فرمان ہے کہ نیکیاں گناہوں کو زائل کر دیتی ہے ( اِنَّ ال ±حَسَنَاتِ یُذ ±ھِب ±نَ السَّیِّئَات ) میں اپنے دل کی تسلی کے لیے کوشش کرتاہوں کہ کسی حادثہ میں یا بیماری میں ‘ کوئی مسلمان مر رہا ہے تو اسے بچاوں۔ میں نے گاوں کے مکانات اور زمینیں سستے داموں میں فروخت کی اور دہلی مےں مکان لیا ۔ بیوی اور دو بھتیجیوں اور حراءکی بہن کو تیار کیا اور پھلت لے جاکر کلمہ پڑھوایا ۔ میرا دل ہر وقت اس غم مےں ڈوبا رہتا ہے کہ اتنے سارے مسلمانوں اور پھول سی بچی کا سفاکی سے قتل کرنے والا کس طرح معافی کامستحق ہے۔ مولوی صاحب نے مجھے قرآن شریف پڑھنے کو کہا اور خاص کر سورة بروج کو بار بار پڑھنے کو کہا ‘اب مجھے وہ زبانی یاد ہے، مجھے ایسا لگاکہ غیب کے جاننے والے اللہ نے اس میںہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے۔ ( سورة البروج: ۴۔۹) اس سورہ کو پڑھیں اور حراء کی تڑپا دینے والی آخری صداؤں پر غور کریں ۔
(بشکریہ ماہنامہ ”ارمغان“ فروری 2011ء )
مسلمانوں کو زندہ جلانے والا آخر کار خود مسلمان ہو گیا |