ایک مرتبہ امام بخاری بغداد تشریف لائے۔ بغداد کے محدثین نے جمع ہوکر امام بخاری سے امتحان لینے کا ارادہ کیا۔ طریق کار یہ تھا کہ دس علماء کو مقرر کیا گیا اور ہر ایک عالم کو دس دس حدیثیں دی گئیں۔ پھر سند اور متن میں انہوں نے تبدیلی کی کہ ایک حدیث کی سند کو دوسری حدیث کے متن کے ساتھ ملا دیا گیا۔ دوسری حدیث کا متن کسی اور سند کے ساتھ ملا دیا گیا۔ اس طرح ایک سو احادیث مقلوبہ کا مجموعہ تیار کیا گیا، تو ہر ایک محدث کی ذمہ داری لگائی گئی کہ جب مجلس خوب جم جائے تو وہ یہ احادیث امام بخاری پر پیش کردے۔ جب بغداد میں یہ مجلس منعقد ہوئی ، جس میں اندرونی اور بیرونی کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ جب اہل مجلس مطمئن ہوکر بیٹھ گئے تو ان دس آدمیوں میں سے ایک امام بخاری کے سامنے آیا تو ایک ایک مقلوب حدیث بیان کی۔ تو امام بخاری نے جواب دیا: ’’لا اعرفہ‘‘ جب اس نے دوسری حدیث بیان کی تو امام بخاری نے جواب دیا: ’’لا اعرفہ‘‘ اس طرح اس نے اپنی دس احادیث پوری کرلیں۔ امام بخاری ہر حدیث کا جواب صرف ’’لا اعرفہ‘‘ سے دیتے تھے۔ جب یہ پہلا شخص خاموش ہوگیا تو دوسرا اٹھ کھڑا ہوا۔ امام بخاری کے سامنے احادیث مقلوبہ بیان کرنے لگا۔ جب اس نے احادیث بیان کرلیں تو باری باری باقی آٹھ علماء نے بھی اپنی دس احادیث بیان کیں۔ امام بخاری ہر ایک کو جواب ’’لا اعرفہ‘‘ سے دیتے تھے۔ اہل مجلس میں سے کچھ افراد سمجھ گئے کہ بات کیا ہے۔ اور کچھ لوگ بات سمجھ نہ سکے۔ وہ امام بخاری کے حافظہ اور علم کے بارے میں شک وشبہ کا شکار ہونے لگے۔
پھر امام بخاری نے پہلا آدمی بلایا ، اسے بتایا کہ تو نے سب سے پہلے یہ حدیث اس طرح پڑھی ہے۔ صحیح حدیث اپنے متن اور سند کے ساتھ ملا کر اس کو بتائی۔ پھر اس کی دوسری مقلوب حدیث اس کو بتائی۔ پھر حدیث کے متن کو اصل سند کے ساتھ ملا کر درست کرکے بتائی۔ اس طرح باقی آٹھ احادیث درست کرکے بتائیں۔ پھر دوسرے آدمی کو بلایا۔ اس کو اس کی بدلی ہوئی حدیث بتائی پھر درست کرکے بتائی ۔ اس طرح ہر آدمی کو بلاتے رہے اور ہر ایک کی دس احادیث کو درست کرکے بتاتے رہے۔
یہ واقعہ حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں باسند بیان کیا ہے۔ امام بیہقی نے مدخل میں اس واقعہ کو بیان کیا۔ امام حاکم نے مختصر واقعہ علوم الحدیث میں بیان کیا۔ حافظ ابن حجر واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس واقعہ کو سن لینے کے بعد امام بخاری کے حافظہ کا سکہ مان لینا پڑتا ہے۔ پھر بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری کا اس مجلس میں ایک سو صحیح احادیث کا بیان کردینا کوئی تعجب والی بات نہیں۔ تعجب والی بات یہ ہے کہ مقلوب شدہ سو احادیث صرف ایک دفعہ بیان کرنے سے اس ترتیب کے ساتھ اسی طرح حفظ کرلیں